یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم!

اور انتہاپسند یہودیوں کا مسلمانوں کے خلاف غیظ وغضب

       از: مولانا سعید احمد جلال پوری‏،جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

                الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!

اسلام، مسلمانوں، دین، دینی مدارس، علمأ، طلبہ اور دینی تعلیم کو مطعون و بدنام کرنے، ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے، گز گز کی زبان نکال کر ان کو بے نقط سنانے والوں اور دینی مدارس کو بند، ان میں رائج تعلیم و نصابِ تعلیم کو ختم یا تبدیل کرنے کی سفارش کرنے والے یہود و نصاریٰ، ان کے ایجنٹوں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ بی بی سی کے مطابق اسرائیل میں یہودیوں کے باقاعدہ مذہبی مدارس قائم ہیں، جہاں خالص یہودی مذہبی نصاب اور نظامِ تعلیم رائج ہے، وہاں خالص یہودی مذہبی افراد تیار کئے جاتے ہیں اور انہیں اسرائیل جیسی صہیونی اور خالص یہودی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ نہ صرف یہی بلکہ ان یہودی مذہبی مدارس میں باقاعدہ عسکریت اور سپاہ گری کی تعلیم و تربیت کا مکمل انتظام ہے اور وہاں مکمل فوجی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دینی مدارس، ان کی خالص دینی، مذہبی، اسلامی تعلیم، نصابِ تعلیم اور پروگرام ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے، تو یہودی مذہبی مدارس، ان کا یہودی مذہبی نصاب اور نظام تعلیم کیونکر قابل برداشت ہے؟ اگر اسرائیل اور ان کے سرپرست یہودی مدارس، ان کے نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کو ختم اور تبدیل کرنے پر زور نہیں دیتے یا ان عسکریت پسند مدارس اور ان کے کٹر بنیاد پرست مذہبی راہ نماؤں، طلبہ اور اساتذہ کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، تو انہیں مسلمانوں کے خالص دینی ،مذہبی اور اصلاحی مدارس، ان کے نصابِ تعلیم، ان کے اساتذہ، طلبہ اور مذہبی راہ نماؤں سے کیوں پرخاش ہے؟ اور وہ ان کے خلاف کیونکر برسرپیکار ہیں؟

اگر یہودی ان مذہبی مدارس، عسکریت پسند مذہبی راہ نماؤں اور ان کے طلبہ کو اپنا مخالف نہیں سمجھتے تو نام نہاد مسلمان ممالک کے اربابِ اقتدار ان خالص اسلام پسند دینی، مذہبی، اصلاحی اداروں، مدارس، ان کے اساتذہ اور طلبہ کو اپنا مخالف کیوں سمجھتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ یہودی اور اسرائیلی حکومت اپنے جھوٹے دین و مذہب کے ساتھ مخلص ہیں، مگر نام نہاد مسلمان اپنے سچے دین و مذہب سے غیر مخلص یا باغی ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ اس مخالفت و عداوت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ یورپ، امریکا اور اسلام دشمن سپر طاقتوں کے دباؤ اور ایجنڈے کی تکمیل میں یہ سب کچھ ہورہا ہو؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہے تو کیا یہ نام نہاد مسلمان حکمران اور بے غیرت حکام ان کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر مسلمانوں کے دینی مدارس اور ان کا نصاب و نظامِ تعلیم ناقابل برداشت ہے تو یہودیوں کے دینی، مذہبی، مدارس، ان کا نصاب و نظامِ تعلیم اور عسکری تعلیم و تربیت گاہیں کیونکر قابل برداشت ہیں؟ اگر مسلمان مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے، ان پر بم برسائے جاسکتے ہیں ان کے طلبہ کو دہشت گرد، تشدد پسند کہا جاسکتا ہے، تو یہودی مدارس اور ان کے طلبہ کے خلاف یہ ”پُروقار“ القاب کیوں نہیں استعمال کئے جاسکتے ؟

الغرض اگر مسلمانوں کے دینی مدارس، جہاں فوجی تربیت، سپاہ گری اور عسکریت وغیرہ کسی قسم کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر یہ ہضم نہیں ہوسکتے تو جن یہودی مذہبی مدارس میں باقاعدہ عسکریت کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے، وہ کیونکر قابل برداشت ہیں؟ اگر مسلم دینی مدارس اور طلبہ کے خلاف بولا اور لکھا جاسکتا ہے؟ ان کو بدنام کیا جاسکتا ہے؟ یا ان کے خلاف پوری دنیا میں دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا جاسکتا ہے تو یہودی مذہبی اور عسکریت پسند مدارس کے خلاف کیوں نہیں لکھا اور بولا جاسکتا؟ لیجئے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی اس سلسلہ کی خبر پڑھئے اور فیصلہ کیجئے کہ نام نہاد مسلمان حکام اور متعصب و کٹر یہودیوں کے طرز عمل میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے؟ تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ گزشتہ دنوں مغربی یروشلم کے اسرائیلی مذہبی اسکول پر ایک شخص نے فائرنگ کرکے آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کو قتل کردیا تو اس پر پوری یہودی دنیا چیخ اٹھی، بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر ملاحظہ ہو:

”مغربی یروشلم میں ہزاروں کی تعداد میں ا سرائیلی اس اسکول کے باہر جمع ہوگئے ہیں، جہاں ایک مسلح شخص کے حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہودیوں کے مذہبی اسکول میرکز ہیراف کے باہر جمع غمزدہ لوگ اس وقت آبدیدہ ہوگئے، جب ایک یہودی رابی نے ہلاک ہونے والوں کی میتوں پر دعائیہ کلمات کہنا شروع کئے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کرسپن ٹورولڈ کا کہنا ہے کہ لوگوں کی طرف سے غم کے اظہار سے اسرائیلی حکومت پر سخت ردِ عمل ظاہر کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے، تاہم اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کو ختم نہیں کرے گا۔

اس حملے میں ملوث فلسطینی مسلح شخص اسکول کے قریب ڈرائیور کے طور پر ملازم تھا۔ پولیس نے اس شخص کی شناخت کرلی ہے اور بتایا کہ اس کا نام علاؤالدین ابو دہیم تھا اور مشرقی یروشلم کا رہائشی تھا۔ مشرقی یروشلم میں یہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد پیش آیا ہے، جس میں ایک سو بیس سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوگئے تھے۔

ہمارے نامہ نگار کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی فورسز اس بات کا بغور جائزہ لے رہی ہیں کہ علاؤ الدین ابو دہیم کا تعلق کسی مسلح گروپ سے نہیں تھا۔ لبنان میں حزب اللہ تنظیم کے قریبی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فلسطینیوں کے ایک غیر معروف گروپ جلیل فریڈیم بٹالین یا الشہداء عماد مغنیہ وشہداء غزا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

عماد مغنیہ حزب اللہ تنظیم کے ایک اعلیٰ اہلکار تھے اور وہ دمشق میں بارہ فروری کو ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

مذہبی اسکول میں ہلاک ہونے والے تمام اسرائیلی تیس سال سے کم عمر تھے۔ عینی شاہدوں کے مطابق ابو دہیم اس مدرسے کی لائبریری سے اندر داخل ہوئے، جہاں اَسی (۸۰) طالب علم موجود تھے ، ابو دہیم نے اندر داخل ہوتے ہی کلاشنکوف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ طالب علموں میں بھگڈر مچ گئی اور انہوں نے کھڑکیوں سے باہر چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔ اس سے قبل کہ ایک سابق فوجی ابو دہیم کو ہلاک کرتا ایک طالب علم نے ابو دہیم کو دو گولیاں ماریں۔

بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور مدیر جرمی بوؤن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام مدرسہ نہیں تھا بلکہ یہ غرب اردن میں یہودیوں کی آباد کاری کے نظریہ کا منبع ہے۔ اس میں زیر تعلیم زیادہ تر طالب علم مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی حاصل کررہے تھے۔

جرمی بوؤن کے مطابق اس اسکول کے باہر جمع ہونے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو پہلے ہی ایہود اولمرت کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مخالف ہیں۔“       (بی بی سی اُردو ڈاٹ کام ،۷/مارچ ۲۰۰۸ء)

ان آٹھ یہودی مذہبی طلبہ کی ہلاکت پر ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں کوئی بھونچال آگیا ہو! ورنہ دنیا میں روزانہ سینکڑوں نہیں ہزاروں معصوم و بے گناہ قتل ہورہے ہیں اور ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ ان میں سے دینی، مذہبی، سیاسی اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ جوان، بوڑھے، مردوں، عورتوں کے ساتھ ساتھ معصوم اور شیر خوار بچے بھی ہوتے ہیں مگر ان بے قصوروں کے قتل عام پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی ، صرف یہی نہیں بلکہ آئے دن بم دھماکے، نام نہاد خودکش حملے، ۵۲ بی کی بمبارمنٹ، راکٹ لانچر اور فاسفورس بم تک گرائے جاتے ہیں، اور آنِ واحد میں ہنستے بستے گھر، بستیاں اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کردیئے جاتے ہیں، مگر اس پر نہ کوئی ہنگامی صورت حال ہوتی ہے نہ ایمرجنسی لگتی ہے، نہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کو اس کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک معمول کی کارروائی کہلاتی ہے، لیکن دوسری طرف اگر ایک یہودی اسکول کے آٹھ عسکریت پسند طالب علم ہلاک ہوتے ہیں تو سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا جاتا ہے، اور اقوام متحدہ اس پر مذمت کرتی ہے اور ہنگامی اجلاس بلالیتی ہے، لیجئے اس سلسلہ کی خبر؟ ملاحظہ ہو:

”مقبوضہ بیت المقدس........ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے مذہبی اسکول پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور سمیت ۹ افراد ہلاک ہوگئے ہیں، دوسری جانب اس واقعے پر شدید عالمی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فائرنگ کے واقعے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے مذہبی اسکول میں فائرنگ کرکے آٹھ افراد کو ہلاک اور پینتیس کو زخمی کردیا گیا تھا، فائرنگ کے واقعے کے بعد اسرائیل میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے، اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق مشرقی بیت المقدس سے ہے۔“

یہودی مذہبی اسکول پر حملہ آور مسلمان ڈرائیور ابو دہیم، اس عسکری تربیت گاہ اور یہودی مذہبی اسکول کے اسلحہ بردار طالب علم کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگیا، مگر اس کے باوجود تاحال یہودی بغض و عناد کی آگ کے شرارے فرو نہیں ہوئے انہوں نے اس کا انتقام لینے کے لئے کیا منصوبہ بنایا؟ اور یہودی مذہبی راہ نماؤں کے اس پر کیا جذبات ہیں؟ ملاحظہ ہوں:

”مقبوضہ بیت المقدس (اے پی پی) دنیا بھر میں مسلم دینی مدارس کو دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دینے کا پروپیگنڈا کرنے والے صہیونی ملک اسرائیل کے چینل ون ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ یہودیت کی تعلیم حاصل کرنے والے ۳ نوجوانوں نے اپنی درس گاہ پر حملے کا مسلمانوں سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ ٹی وی چینل کے مطابق تینوں یہودی نوجوان مسجد اقصیٰ سے وابستہ کسی نامور مسلمان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی مذہبی درسگاہ پر حملے کے بعد ۳ یہودی طلباء نے اپنے منصوبے کے حوالے دو ربیوں (یہودی مذہبی عالم) سے ملاقات کی ایک ربی نے حملے کا منصوبہ بنانے والے یہودی طلباء کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، جبکہ تل ابیب کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر ایک ربی نے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کا ہدف مسجد اقصیٰ سے منسلک ایک مسلم عالم دین کو جسمانی ضرر پہنچانا ہے۔ اس ضمن میں اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ یہودی درسگاہ پر حملے کے ردِ عمل میں کسی بھی واقعے کے لئے تیار ہے۔“          (روزنامہ امت کراچی، ۱۲/مارچ ۲۰۰۸ء)

مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی و دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور بھونڈا راگ الاپنے والے شورہ پشت یہودیوں نے اپنے چند طلبہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے کس انتہا پسندی، دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے؟ اور اس سلسلہ میں وہ کہاں تک آگے جانے والے ہیں؟ انکے مذہبی پیشوا مسلمانوں، ان کی مقدس عبادت گاہوں اور مذہبی راہ نماؤں کو کیا مزہ چکھانا چاہتے ہیں؟ ملاحظہ ہو:

”بیت المقدس (ثناء نیوز) اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی رہنماؤں نے حال ہی میں مذہبی اسکول پر حملہ آور کا بدلہ لینے کے لئے مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔ مڈل ایسٹ اسٹیڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق تین اعلیٰ سطحی مذہبی پیشواؤں نے مشترکہ طور پر جاری ایک فتوے میں کہا ہے کہ یہودی شریعت کی رو سے یہودی شہریوں کے قتل کے بدلے مخالف مذہب کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ شریعت کی رو سے مسجد اقصیٰ کو یہودی شہریوں کے بدلے مسمار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ فلسطینی مسلمان بھی یہودی آباد کاروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مشورے میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی شریعت نہ صرف مذہبی مقامات پر حملوں کی اجازت دیتی ہے بلکہ ایک عام یہودی کے بدلے دوسرے مذہب کے اعلیٰ سطحی راہنماؤں کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔“               (روزنامہ جنگ کراچی، ۱۴/مارچ ۲۰۰۸ء)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی اپنے دین و مذہب، مذہبی درس گاہوں، اپنے مذہبی طلبہ اور اپنے مذہبی لوگوں کے بارہ میں کس قدر حساس ہیں؟ جو یہودی آئے دن مسلمانوں کی مقدس شخصیات، ان کے معصوم شہریوں، جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو تہہ تیغ کرتے ہیں اور مسلمان آبادیوں پر بمباری کرکے ان کے شہروں کو کھنڈرات بنارہے ہیں، اگر ان کے چند طلبہ، کسی ردِ عمل میں مارے جاتے ہیں اور ان کا قاتل ان کی تیغ جفا سے بچ کر بھی نہیں جاسکا، مگر بایں ہمہ وہ اس قدر بپھر چکے ہیں کہ انہوں نے یک آواز ہوکر فتویٰ صادر کردیا کہ ان آٹھ عسکریت پسند مذہبی طلبہ کے بدلہ اور انتقام میں مسلمان مذہبی راہ نماؤں، ان کی مقدس عبادت گاہوں حتی کہ مسجد اقصیٰ کو بھی نشانہ بنانا جائز ہے۔

اس موقع پر ہم دنیا بھر کے انصاف پسند افراد، جماعتوں، مسلمانوں، دینی مذہبی راہ نماؤں، اخبارات و میڈیا کے ذمہ داروں اور اربابِ قلم سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر مسلمانوں، مسلمان مدارس، دینی، مذہبی اداروں کے خلاف یہودیوں، ان کے ایجنٹوں ، ان کے وفاداروں اور ان کے نمک خواروں اور ان کے زرخرید غلاموں کی زبان و قلم حرکت میں آسکتے ہیں تو حق و انصاف کے علمبرداروں کی زبان و قلم ان یہودی مدارس کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آسکتے؟ صرف اس لئے کہ یہودی مدارس کو یورپ و امریکا اور سپر طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے؟ اور مسلمان دینی مدارس اس سے محروم ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو آپ بھی اس حقیقت کو اجاگر کریں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو حق کا ساتھ دینے کے لئے بروئے کار لائیں، یہ آپ کا دینی، مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی فرض بنتا ہے، اگر آپ نے اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کی تو نہ صرف یہ کہ آپ اپنا وزن ان ظالموں کے پلڑے میں ڈالنے والے ہوں گے بلکہ تاریخ میں آپ کا نام بھی ان ظالموں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔

__________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 92 ‏، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء